قحط الرجال کیا ہے

*"قَحْطُ الرِّجَال" کیا ہے*
 
بدھ 27 اگست 2025
انجینیئر نذیر ملک 

قحط الرجال یعنی سمجھدار اور عقل و دانش والے لوگوں کا قحط یعنی ان کا معاشرے سے مفقود ہو جانا یا عام نہ ملنا بلکہ چیدہ چیدہ رہ جانا قحط رجال کہلاتا ہے جیسے کہ آجکل وطن عزیز میں آبادی تو بڑھتی جا رہی ہے مگر قحط الرجال ہے

اصطلاحی مطلب: ایسے وقت یا ماحول کو کہتے ہیں جب قابل، باکردار، باصلاحیت اور قیادت کرنے والے لوگ نایاب ہو جائیں۔

یعنی لوگ تو موجود ہوں مگر ان میں علم، بصیرت، صلاحیت یا قیادت کی اہلیت نہ ہو۔

 مثالیں
اگر کسی معاشرے میں بڑے بڑے مسائل ہوں مگر انہیں حل کرنے کے لیے مخلص اور اہل قیادت نہ ملے یہی قحط الرجال ہے۔

اگر اداروں، عدالتوں یا سیاست میں دیانتدار اور قابل لوگ نہ ملیں یہ بھی قحط الرجال کہلاتا ہے۔

تاریخی پس منظر:
یہ محاورہ عربی ادب میں بہت پرانا ہے اور علماء و خطباء استعمال کرتے آئے ہیں۔

ہمارے ہاں برصغیر کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی اس کو بہت بار استعمال کیا ہے، خاص طور پر جب اہل علم یا اہل قیادت کی کمی پر افسوس کیا جاتا ہے۔

خلاصہ:
قحط الرجال وہ وقت یا حالت جب معاشرے میں اہل، مخلص اور باصلاحیت لوگ ناپید ہو جائیں۔

آئیے قحط الرجال کو قرآن و تاریخ کی روشنی میں مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

قرآنی حوالہ جات کے تناظر میں:

قرآن کریم میں لفظی طور پر "قحط الرجال" تو نہیں آیا، مگر کئی جگہ ایسے حالات کا ذکر ہے جہاں اہل، صالح اور بصیرت رکھنے والے افراد کی کمی تھی:

1. قومِ بنی اسرائیل کا حال

جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین مقدس (فلسطین) لکھی ہے، تو وہ بزدل ہو گئے اور کہنے لگے:
“اے موسیٰ! تو اور تیرا رب جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں” (سورۃ المائدہ 24)

یہ رویہ اہلِ قیادت اور جرات مند افراد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے قحط الرجال۔

2. اصحاب السبت (سبت یعنی ہفتہ والوں) کا قصہ:

اکثر لوگ نافرمان ہوئے، چند نیک لوگ وعظ کرتے رہے اور کچھ خاموش۔

اصل اصلاح کرنے والے مرد کم تھے یہ بھی ایک طرح کا قحط الرجال ہے۔

تاریخی مثالیں:

1. واقعہ کربلا (61 ہجری)
یزید کے مقابلے میں کربلا میں سیدنا امام حسینؓ کے ساتھ صرف چند درجن جانثار تھے، جبکہ امت کے بڑے بڑے شہر خاموش رہے۔

یہ امت میں قحط الرجال کی بڑی مثال ہے کہ حق کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہ تھا۔

2. خلافتِ عباسیہ کا زوال:
عباسی دور کے آخر میں اہلِ علم اور اہلِ کردار قیادت کمزور ہو گئی، درباری سازشیں بڑھ گئیں، اور خلافت کمزور ہو کر ختم ہو گئی۔

یہاں بھی قحط الرجال تھا۔

3. اندلس کا زوال:
مسلمان بادشاہ آپس میں لڑتے رہے، کوئی بصیرت والا رہنما نہ رہا۔

عیسائیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور پورا اندلس چھن گیا۔
یہ بھی قحط الرجال کی واضح مثال ہے۔

خلاصہ:
قحط الرجال دراصل وہ زمانہ ہے جب:
اہل علم کم ہوں اور
بہادر و مخلص قیادت نہ ملے

لوگ موجود ہوں مگر کردار و صلاحیت سے خالی ہوں

آج کے دور میں قحط الرجال کن کن شعبوں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے:

1. سیاست اور قیادت:
سیاست دان زیادہ تر ذاتی مفاد، کرسی اور اقتدار کی جنگ میں لگے ہیں۔

قوم کے لیے مخلص، ایماندار اور دور اندیش قیادت نایاب ہے۔
فیصلے وقتی مفاد پر ہوتے ہیں، ملک و قوم کے طویل مدتی مستقبل پر نہیں۔

یہ سیاست میں قحط الرجال ہے۔

2. عدلیہ اور قانون:
انصاف صرف کاغذی رہ گیا ہے، طاقتور بچ جاتے ہیں اور کمزور سزا پاتے ہیں۔
بڑے فیصلے دباؤ یا مفاد کے تحت ہوتے ہیں۔

ایسے جج کم ہیں جو حضرت عمرؓ کی طرح انصاف قائم کر سکیں۔

یہ عدلیہ میں قحط الرجال ہے۔

3. تعلیم اور علم:
استاد علم بانٹنے کے بجائے نوکری کو محض ذریعہ معاش سمجھتا ہے۔

طلبہ میں تحقیق، تخلیق اور کردار سازی کی کمی ہے۔

ایسے اہل علم کم ہیں جو صرف ڈگری نہیں بلکہ قوم کی رہنمائی کریں۔

یہ علمی میدان میں قحط الرجال ہے۔

4. مذہبی قیادت:
علماء کے مختلف گروہ آپس میں ٹکراؤ اور فرقہ واریت میں الجھے ہیں۔

امت کو متحد کرنے والے، وسیع النظر اور سچے علماء بہت کم ہیں۔

زیادہ زور "اختلاف" پر ہے، "اتحاد" پر نہیں۔

یہ دینی میدان میں قحط الرجال ہے۔

5. معیشت اور صنعت:
ملک کے وسائل تو موجود ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کے لیے وژنری ماہرین نایاب ہیں۔

کرپشن اور کمزور پالیسیوں نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔
یہ معاشی میدان میں قحط الرجال ہے۔

6. بین الاقوامی سطح پر:
امت مسلمہ کے پاس کروڑوں نوجوان ہیں لیکن ایسے رہنما کم ہیں جو عالمی سطح پر اسلام کی نمائندگی کر سکیں۔

دشمن متحد ہیں، مگر ہم ٹکڑوں میں بٹے ہیں۔

خلاصہ
آج کا سب سے بڑا قحط الرجال یہ ہے کہ:
اہل کردار، اہل بصیرت، اور اہل قیادت افراد کم ہیں۔
لوگ تو بہت ہیں، مگر وہ قوم کے لیے مخلص اور قربانی دینے والے نہیں:

آئیے دیکھتے ہیں کہ قحط الرجال سے نکلنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔

1. تعلیم اور کردار سازی:
صرف ڈگریاں نہیں بلکہ کردار، ایمان اور دیانت کی تعلیم دینی ہوگی۔

تعلیمی نظام کو ایسی تربیت گاہ بنانا ہوگا جہاں علم کے ساتھ اخلاق بھی پروان چڑھے۔

مثال: نبی اکرم ﷺ نے مکہ کے جاہل معاشرے کو ایسے رجال (ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ) میں بدل دیا جو دنیا کے بہترین قائد بنے۔

2. قرآن و سنت کی طرف واپسی:
اصل رہنمائی صرف قرآن و سنت سے ممکن ہے۔

جب فیصلے اللہ کے قانون کے مطابق ہوں گے تو ایسے رجال پیدا ہوں گے جو عدل قائم کریں گے۔

3. گھر اور خاندان کی تربیت:
ماں باپ اگر بچوں میں سچائی، قربانی، غیرت اور حق گوئی پیدا کریں تو وہی بچے بڑے ہو کر امت کے رجال بنیں گے۔

گھر سب سے پہلی درسگاہ ہے۔

4. علماء اور رہنماؤں کی اصلاح:
علماء و مشائخ اگر ذاتی مفاد اور فرقہ واریت چھوڑ کر امت کے اتحاد پر زور دیں تو قحط الرجال ختم ہو سکتا ہے۔
صرف اختلاف نہیں بلکہ عملی نمونہ بننا ہوگا۔

5. عدل و انصاف کا نظام
معاشرے میں انصاف قائم کرنا ضروری ہے۔

جہاں عدل نہ ہو وہاں اہل لوگ آگے نہیں آتے، وہاں صرف چالاک اور ظالم حکمران بنتے ہیں۔

6. نوجوانوں کی تربیت
نوجوان امت کا اصل سرمایہ ہیں۔

اگر ان کو صرف موبائل، کھیل اور خواہشات میں چھوڑ دیا گیا تو وہ کبھی رجال نہیں بنیں گے۔

انہیں علم، تحقیق، خدمتِ خلق اور بہادری کی راہوں پر لگانا ہوگا۔

7. اجتماعی شعور:
عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ ہر معاشرہ وہی پھل دیتا ہے جیسی عوام ہو۔
جب لوگ خود دیانتدار، محنتی اور ذمہ دار بنیں گے تو ان میں سے رجال پیدا ہوں گے۔

خلاصہ قحط الرجال ختم کرنے کا طریقہ:

& تعلیم + کردار
$ قرآن و سنت پر عمل
$ خاندان کی مضبوط تربیت
$انصاف کا نظام۔
& نوجوانوں کی عملی تربیت

آئیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں وہ کون سی عظیم شخصیات (اہلِ رجال) ہیں جو قحط الرجال کے اندھیروں میں چراغ بنیں اور جن سے آج ہم سیکھ سکتے ہیں:

عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ:

1. حضرت ابوبکر صدیقؓ
نبی ﷺ کے بعد سب سے مشکل وقت میں خلافت سنبھالی۔
ارتداد کی جنگ لڑی اور امت کو ٹوٹنے سے بچایا۔
سادہ زندگی + عظیم قیادت = کامل رجل۔

2. حضرت عمر فاروقؓ:
عدل و انصاف کی سب سے بڑی مثال۔

کہا: "دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا"۔

دنیا کی دو بڑی سلطنتیں (روم و فارس) ان کے دور میں اسلام کے سامنے جھک گئیں۔

3. حضرت عثمان غنیؓ:
سخاوت اور قرآن کی جمع و تدوین میں عظیم کارنامہ۔
مشکل وقت میں بھی نرم خو اور صابر رہنے والے۔

4. حضرت علی کرم اللہ وجہہ
بہادری، علم اور عدل میں یکتا۔
فرمایا: "کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کا نظام کبھی قائم نہیں رہتا"۔

دیگر اسلامی شخصیات

5. صلاح الدین ایوبی
$ صلیبیوں کے مقابلے میں امت کو ایک کیا۔
$ بیت المقدس کو آزاد کروایا۔
کردار:
بہادر + دیندار + عفو و درگزر رکھنے والے۔

6. نورالدین زنگی
عدل اور تقویٰ میں بے مثال۔
رسول اللہ ﷺ کی قبر کی حفاظت کا اہتمام کیا۔

7. عمر بن عبدالعزیز (خلیفہ راشدِ ثانی)
صرف ڈھائی سال میں امت کو عدل و انصاف کا ذائقہ دیا۔
فرمایا: "میں چاہتا ہوں کہ میرا ہر فرد خوشحال ہو اور بیت المال میں فالتو مال بچ جائے"۔

برصغیر میں
8. شاہ ولی اللہ دہلوی:
زوال کے دور میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کی دعوت دی۔
امت کو اصلاح اور اتحاد کی راہ دکھائی۔

9. ٹیپو سلطان
برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ڈٹ کر لڑے۔
فرمایا: "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"۔

 خلاصہ:
ان تمام رجال میں چند صفات مشترک تھیں:

ایمان میں پختگی۔
عدل و انصاف۔
ایثار و قربانی۔
قوم و امت کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا۔

الدعاء 
یا اللہ تعالی ہمیں ہمت عطا فرما کہ ہم اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان سے بہت بہتر کارکردگی کا مظہر بنیں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at https://engineernazirmalik.blogspot.com 
Cell: 0092300860 4333

تبصرے