غاصب کی شفاعت
*کیا غاصب کی شفاعت ہوگی*
ہفتہ 23 اگست 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
”کیا غاصب (یعنی دوسروں کا حق ناحق دبانے والا یا ناجائز طریقے سے مال و جائیداد ہتھیانے والا) کی شفاعت ہوگی؟“
✅ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت:
1. غصب کی حرمت:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم سے لی، قیامت کے دن وہ سات زمینوں تک اسے دبوچ لے گی۔"
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غصب نہ صرف بڑا گناہ ہے بلکہ قیامت میں سخت عذاب کا باعث ہوگا۔
2. شفاعت عام اصول کے تحت:
شفاعت برحق ہے، مگر اہلِ توحید کے لیے مخصوص ہے۔
قرآن کہتا ہے:
> "مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ"
(البقرۃ: 255)
یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا مگر اللہ کے حکم سے۔
اس کا مطلب ہے کہ گناہگار مسلمان — خواہ وہ بڑا گناہگار ہی کیوں نہ ہو — اگر شرک و کفر سے خالی ہو تو شفاعت کا امیدوار ہوسکتا ہے۔
3. غاصب کی حالت:
اگر غاصب نے حق دار کا حق واپس کر دیا یا توبہ کر لی تو اس پر اللہ کی رحمت اور شفاعت دونوں کی امید ہے۔
لیکن اگر غاصب بغیر توبہ مر گیا اور مظلوم کا حق لوٹایا نہیں، تو قیامت کے دن اس کا حساب بہت سخت ہوگا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "قیامت کے دن حق داروں کو ان کے حقوق دیے جائیں گے، یہاں تک کہ سینگ والی بکری کا بدلہ بےسینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔"
(صحیح مسلم)
یعنی غاصب کے مظلومین کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے، اگر نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ غاصب پر ڈال دیے جائیں گے (صحیح بخاری)۔
4. شفاعت کی امید:
اگر غاصب ایمان پر مرا، تو اللہ چاہے گا تو اپنے حکم سے نبی کریم ﷺ یا کسی اور مقرب بندے کی شفاعت کے ذریعے اسے عذاب سے نجات دے سکتا ہے۔
لیکن اس وقت تک جب تک مظلوم کے حقوق پورے نہ کر دیے جائیں، شفاعت مؤخر ہوگی۔
خلاصہ:
غاصب اگر توبہ نہ کرے اور حق واپس نہ کرے تو قیامت میں اس پر سخت گرفت ہوگی۔
شفاعت کا امکان صرف ایمان والے غاصب کے لیے ہے، لیکن وہ بھی مظلوموں کا حق ادا کرنے کے بعد ہی شفاعت کے حقدار ہوں گے۔
لہٰذا سب سے بہتر یہی ہے کہ انسان دنیا میں ہی توبہ کرکے دوسروں کے حقوق لوٹا دے، تاکہ آخرت میں ذلت و رسوائی اور مظلومین کے دعووں سے محفوظ رہے۔
سوال:
اگر غاصب توبہ کر کے فوت ہوا ہے تو مظلوم کے غصب کئے ہوئے مال لوٹائے بغیر اللہ تعالی کیسے غاصب کے شفاعت کریں گے کیا یہ قرینہ انصاف ہو گا؟
"اگر غاصب توبہ کر کے فوت ہو گیا، لیکن مظلوم کا حق واپس نہیں کیا تو کیا اللہ تعالیٰ اس کی شفاعت قبول کرے گا؟ اور کیا یہ انصاف کے خلاف نہ ہوگا؟"
1. شریعت کا اصول:
اسلام میں دو طرح کے حقوق ہیں:
1. حقوق اللہ (نماز، روزہ وغیرہ) → ان میں اللہ چاہے تو توبہ سے معاف فرما دیتا ہے۔
2. حقوق العباد (لوگوں کے مالی و جانی حقوق) → یہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کی ادائیگی ضروری ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "جو شخص اپنے بھائی پر ظلم کرے، اس کو چاہیے کہ دنیا ہی میں معاف کرا لے، ورنہ قیامت کے دن نہ دینار ہوگا نہ درہم۔ اگر اس کے نیک اعمال ہوں گے تو ان میں سے لے لیے جائیں گے، اور اگر نیک اعمال نہ ہوں گے تو مظلوم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔"
(صحیح بخاری: 2449)
2. غاصب کی توبہ کی حقیقت:
اگر غاصب نے سچے دل سے توبہ کی، لیکن فوت ہونے سے پہلے مال واپس کرنے کا موقع نہ ملا یا وہ اس تکلیف میں تھا کہ لوٹا نہیں سکا، تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کی توبہ قبول کرے گا اور قیامت کے دن مظلوم کو اس کے بدلے میں جنت میں سے کچھ دے دے گا۔
لیکن اگر غاصب کے پاس موقع تھا مگر جان بوجھ کر حق واپس نہیں کیا، تو اس کی توبہ نامکمل ہوگی، اور قیامت کے دن اس کا مواخذہ لازمی ہوگا۔
3. انصاف کا تقاضا:
اللہ تعالیٰ کامل انصاف والا ہے، اس لیے:
غاصب کو بغیر حساب کے معاف نہیں کرے گا۔
یا تو مظلوم کو دنیا میں بدلہ دلوا دے (اگر غاصب نے لوٹا دیا ہو)۔
یا آخرت میں مظلوم کو غاصب کے اعمال دے دے یا جنت میں اس سے بھی اعلیٰ بدلہ عطا کرے۔
اس کے بعد اللہ چاہے تو غاصب کو اپنی رحمت سے معاف کرے اور شفاعت نصیب کرے۔
4. شفاعت کیسے ہوگی؟
شفاعت کا تعلق صرف اہلِ ایمان سے ہے۔
لیکن غاصب کے مظلومین کا حساب پہلے پورا ہوگا۔
اس کے بعد جب اس پر عذاب مقرر ہوگا تو اللہ کی اجازت سے نبی ﷺ یا کوئی مقرب بندہ اس کے لیے شفاعت کرے گا۔
یعنی شفاعت عدل کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ اس وقت ہوگی جب حق دار کا پورا حق ادا ہو چکا ہوگا۔
📌 نتیجہ:
اگر غاصب نے حق واپس کیے بغیر مر گیا تو اس کا معاملہ سیدھا مظلوم کے ساتھ عدل پر ہوگا۔
شفاعت ممکن ہے، لیکن اس کے بعد جب اللہ مظلوم کو بدلہ دے دے۔
اس لیے اصل انصاف یہی ہے کہ شفاعت سے پہلے مظلوم کا حق لوٹایا جائے گا، چاہے غاصب کے اعمال سے یا اللہ کی رحمت سے مظلوم کو جنت میں بدلہ دے کر۔
تبصرے