برلاس کے تین کنویں
برلاس کے تین کنویں، عزت اور قربانی کی داستان
جمعرات 25 ستمبر 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
1947ء کی تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کا ایسا باب ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ یہ آزادی کا لمحہ تھا لیکن اس کے ساتھ ہی بربادی اور المناک قربانیوں کا بھی دور تھا۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوئے، ہزاروں مارے گئے اور خواتین کی عزتیں دشمن کے ہاتھوں پامال ہوئیں۔ اسی خونچکاں منظرنامے میں پنجاب کے ایک گاؤں برلاس کے تین کنویں آج بھی تاریخ کی گواہی دے رہے ہیں۔
*برلاس کے تین کنویں: قربانی کی علامت،*
کہا جاتا ہے کہ جب فسادات اپنے عروج پر تھے تو سکھ جتھوں نے مسلمانوں کے ایک گزرنے والے قافلے پر حملہ کیا۔ مرد تو مقابلے کے لیے تیار ہو گئے مگر خواتین کے سامنے ایک اور کڑا امتحان تھا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ اگر دشمن کے ہتھے چڑھ گئیں تو جان سے زیادہ قیمتی ان کی عزت چھن جائے گی۔
اسی لمحے ان بہادر خواتین نے فیصلہ کیا کہ جان دینا قبول ہے لیکن عزت پر آنچ نہ آنے دیں گی۔
یوں درجنوں خواتین نے یکے بعد دیگرے ان تین کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں قربان کر دیں۔
*پنجاب کے دیگر سانحات*
یہ سانحہ صرف برلاس تک محدود نہ تھا۔ پنجاب بھر میں کئی مقامات پر خواتین نے اجتماعی طور پر کنوؤں اور دریاؤں میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں قربان کیں۔
گورداسپور اور پٹھانکوٹ میں یہی المیہ دہرایا گیا۔
لدھیانہ اور جالندھر کے علاقوں میں بھی کنوؤں میں اجتماعی چھلانگ کے واقعات پیش آئے۔
راوی دریا کے کنارے ہجرت کرنے والے قافلے بھی اسی دردناک داستان کا حصہ بنے۔
یہ سب واقعات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے مسلمان خواتین نے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔
*تقسیم ہند کی قیمت*
تقسیم ہند کی قیمت ناقابلِ یقین تھی۔ مورخین کے مطابق:
تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ انسان ہجرت پر مجبور ہوئے۔
آٹھ سے دس لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔
ہزاروں خواتین اپنی عزت کی حفاظت کرتے کرتے شہید ہو گئیں۔
یہ اعدادوشمار محض نمبرز نہیں بلکہ ایک ایسی انسانی ٹریجڈی ہیں جو ہر پڑھنے والے کے دل کو چیر دیتی ہیں۔
*مہاجریں کی قربانی کا پیغام*
آج برلاس کے تین کنویں محض پانی کے ذخیرے نہیں رہے بلکہ عزت و غیرت کی حفاظت اور قربانی کی علامت بن چکے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آزادی یوں نہیں ملی، بلکہ اس کے پیچھے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا خون شامل ہے۔
*دعا اور عہد*
آئیے آج ہم ان بہادر غیرتمند خواتین کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے یہ دعا کریں:
> اے اللہ! برلاس کی بیٹیوں سمیت اُن سب شہداء اور خواتین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما، جنہوں نے اپنی جان دے کر عزت اور ایمان کی حفاظت کی۔ ہمیں بھی اپنی آزادی اور غیرت کی حفاظت کا شعور عطا فرما، اور ہمیں کبھی ان قربانیوں کو فراموش نہ کرنے دینا۔
آمین یا رب العالمین
یہ دعاء محض الفاظ نہیں بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم ان قربانیوں کو یاد رکھیں گے اور آنے والی نسلوں کو بھی یہ سبق دیں گے کہ عزت اور آزادی ہر قیمت پر قابل حفاظت ہے۔
"جان دینا قبول ہے، مگر عزت پر آنچ نہ آنے دینا۔ یہی پیغام برلاس میں مسلمان بیٹیوں نے دنیا کو دیا۔"
"برلاس کے تین کنویں آج بھی یاد دلاتے ہیں کہ آزادی اور غیرت خون کے نذرانوں سے حاصل ہوئی۔"
"عزت ایمان کی طرح ہے، جس کی حفاظت کے لیے جان بھی قربان کی جا سکتی ہے۔"
"یہ کنویں پانی کے نہیں، بلکہ قربانی اور غیرت کے چشمے ہیں جو آنے والی نسلوں کو وفاداری کا درس دیتے رہیں گے۔
آج ہم سکھوں کی مدد کرتے ہیں اور عزت افزائی بھی کرتے ہیں پاکستان میں کرتار سنگھ لانگا بھی دیتے ہیں مگر کل انھی سکھوں نے ہماری راہ میں کانٹے بوئے تھے
*برلاس کا ایک اور بھیانک پہلو*
1948 میں حکومت پاکستان کا ایک فوجی ڈیلیگیشن روکے گئے مسلمانوں کو چھڑانے کیلئے ہندوستان گیا تھا اور ایک رپورٹ پر برلاس بھی گیا تھا وہاں پر کچھ لوگوں نے یہ ہائی لائٹ کیا کہ ایک بڈھے ہندو چمار نے ایک جواں سال سید زادی کو اپنی حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور ہمارے ڈیلیگیٹس اس بڈھے چمار سے ملے اور اس مسلمان لڑکی کو باز یاب کرنے کی کوشش کی تو یہ لڑکی اس بڈھے چمار کے پیچھے چھپنے لگی اور پاکستانی فوجیوں کے ساتھ آنے انکار کیا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لڑکی اس بڈھے چمار کو اپنا ہمدرد اور پاکستانی فوجی افسروں کو اپنا دشمن جان رہی تھی۔
ان آفیسر نے بڈھے چمار کو برا بھلا کہا اور لڑکی سے پوچھا کہ تم کون ہو تو لڑکی نے بتلایا کہ وہ مسلمان ہے اور سید گھرانے سے تعلق رکھتی ہے تو ان فوجی آفسران نے چمار کو برا بھلا کہا اور اسے بتلایا کہ جس لڑکی کو اس نے روک رکھا ہے وہ مسلمانوں کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھرانے کی بیٹی ہے اور تم ایک چمار ہو کچھ حیا کرو اس پر وہ بڈھا چمار کچھ رضامند ہوا اور اپنے گھر کے اندر والے کمرے میں گیا اور اسکے ہاتھ میں ایک شال تھی اور وہ شال لا کر اس نے اس سید زادی کے سر پر اڑھائی اور کہنے لگا کہ
"بیٹی میں تمھیں کچھ اور تو نہیں دے سکتے سکتا یہ شال لیجاو اور ان کے ساتھ آپ اپنوں میں چلی جاو اور پیار سے اس سید زادی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور سید زادی کو پاکستان کیلئے رخصت کیا۔۔۔۔۔"
( یہ جملے لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں زار و قطار آنسو ہیں۔)
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
مہاجر قوم زندہ باد
پاکستان ہمیشہ زندہ باد
پاک فوج کو سلام۔
ایک محب الوطن بزرگ شہری
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
تبصرے