مقصد نزول قرآن
طوطے کو لاکھ پڑھایا مگر پھر بھی حیواں ہی رہا۔
قرآن حفظ کرنا بندے کی خوبی نہیں لیکن یہ خوبی بھی قرآن کی ہی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بھی قرآن ہے اور اسی لئے اس کتاب کا نام قرآن ہے۔
مقصد نزول قرآن یہ تھا کہ اسے پڑھا جائے سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے مگر افسوس اسے رٹ لیا گیا اور گھول گھول کر پیا جا رہا ہے کاش میری قوم اس پر عمل کرنے لگے وگرنہ روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری اللہ تعالی سے شکایت کریں گے کہ
"میری قوم نے قرآن چھوڑ رکھا تھا"
کہیں گے: "اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا". اس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے قرآن کو نظر انداز کیا، اس کی تلاوت تو کی مگر اس پر عمل نہیں کیا، اسے اپنی زندگی سے الگ کر دیا اور اسے اپنی رہنمائی کے لیے استعمال نہیں کیا. یہ صرف تلاوت کا معاملہ نہیں بلکہ فہم، عمل اور زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن کو شامل کرنے سے متعلق ہے.
قرآن چھوڑنے کے معنی
نظر انداز کرنا: قرآن کی تلاوت کرنا، اسے سجانا اور اسے پڑھنا قابل احترام ہے، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا ہم نے اسے سمجھا اور اپنی زندگی کے فیصلوں میں شامل کیا.
عمل نہ کرنا: قرآن صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے نازل ہوا تھا. اس پر عمل نہ کرنا، اور اس کی تعلیمات کو نظر انداز کرنا بھی اسے چھوڑنا ہے.
غفلت: اس کے پیغام سے غافل ہو جانا، اسے زندگی سے الگ کر دینا بھی قرآن کو ترک کرنا ہے.
یہ شکوہ کیوں ہوتا ہے؟
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں لوگوں کو قرآن کی طرف بلاتے تھے لیکن انہوں نے روگردانی کی اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا.
یہ شکایت اللہ تعالی کے حضور قیامت کے دن ہوگی تاکہ ان لوگوں کے لیے اللہ کا عذاب بڑھا دیا جائے جنہوں نے دنیا میں قرآن کو ترک کیا تھا.
ہم سب سے متعلق
یہ آیت ان مسلمانوں کے لیے بھی ہے جو عملاً قرآن کو ترک کر چکے ہیں اور جن کی زندگی مکمل طور پر غیر قرآنی ہے.
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھ کر فراموش کر دے گا، قیامت کے دن قرآن اللہ سے اس کے خلاف شکایت کرے گا.
الدعاء
اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین
الاحقر العباد
انجینیئر نذیر ملک سلانوالی
Cell: 0092300860 4333
تبصرے