امت مسلمہ کے فکری زوال کا تجزیہ

🌙 فتویٰ باز ملّا اور علم کی راہ میں رکاوٹ

*امتِ مسلمہ کی فکری زوال کا تجزیہ*

اتوار  اکتوبر 2025
تحریر:
انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا
سابق انجینیئر، کینپ (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)

تمہید
اسلام ایک ایسا دین ہے جو عقل، علم اور تحقیق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے:

> “اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟” — کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
“اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ؟” — کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟

لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ علم و دانش کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔
اس زوال کا ایک بڑا سبب وہ فتویٰ باز علماء سوء ہیں جو اسلام کی روشن روح کو اپنے مفاد کے پردوں میں چھپا دیتے ہیں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو منبر کو اصلاحِ امت کے بجائے اپنی فکری اجارہ داری کا ہتھیار بنا چکا ہے۔

*فتووں کی سیاست — علم کے خلاف اعلانِ جنگ*

برصغیر کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ
جب بھی کوئی صاحبِ علم یا مفکر امت کی اصلاح یا بیداری کے لیے اٹھا،
اسے کفر کے فتوے سے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ فتوے محض شخصیات کے خلاف نہیں، بلکہ عقل، منطق اور اجتہاد کے خلاف اعلانِ جنگ ہیں۔

علم کی روشنی جہاں بھی چمکنے لگتی ہے، وہاں تنگ نظر فتویٰ بازوں کے اندھیرے چھا جاتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ قوم کے دماغ بند، اور دل خوف سے مرجھا جاتے ہیں۔

وہ مفکرین جنہیں فتووں نے زخمی کیا

تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے مفکرین، مصلحین اور رہنما فتوے کی تلوار کے نیچے آئے:

1- سر سید احمد خان  جنہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف بلایا،
سائنسی شعور دیا، اور قرآن کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کا راستہ دکھایا۔
ان پر کفر کے فتوے لگے، مگر آج انہی کے قائم کردہ ادارے امت کے علمی ستون بنے ہوئے ہیں۔

2- ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  جنہوں نے اسلام کی روح کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا،
اور امت کو خودی و خوداعتمادی کا درس دیا۔
لیکن ان پر بھی الحاد اور گمراہی کے فتوے صادر ہوئے۔
آج انہی کے اشعار خطبوں میں گونجتے ہیں۔

3. قائداعظم محمد علی جناح — جنہوں نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کی بنیاد رکھی،
ان پر بھی “کافرِ اعظم” کے فتوے لگائے گئے۔
مگر انہی کے خواب سے پاکستان کا وجود ممکن ہوا۔

4. ڈاکٹر ذاکر نائیک — جدید دور کے عظیم مبلغ،
جنہوں نے منطق و سائنس کے ذریعے اسلام کا دفاع کیا۔
آج وہ بھی فتووں اور پابندیوں کی زد میں ہیں۔

یہ سب وہ چہرے ہیں جنہیں امت کے معمار بننا تھا،
مگر فتوے بازوں نے ان کی روشنی کو عوام کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا۔

علماء سوء — دین کے نام پر مفاد پرست طبقہ

قرآنِ مجید میں ایسے علما کا ذکر موجود ہے:

> “اُولٰئِکَ کَالْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا”
(الجمعۃ: 5)
یعنی وہ گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں تو اٹھائے پھرتا ہے مگر ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔

آج کے دور کے بہت سے نام نہاد علما اسی آیت کے مصداق ہیں۔
یہ مسجدوں کے منبروں پر بیٹھ کر عوام کی منفی ذہن سازی کرتے ہیں،
حکومتِ وقت کے خلاف نفرت بھڑکاتے ہیں،
اور تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

یہ وہ طبقہ ہے جو عوام کے چندوں پر پلتا ہے،
مگر انہی عوام کے شعور کو مسخ کرتا ہے،
تاکہ وہ ہمیشہ ان کے محتاج رہیں۔

*خلافتِ راشدہ کا اصول*
خلافتِ راشدہ کے دور میں فتویٰ دینا ایک سنجیدہ اور باقاعدہ ذمہ داری تھی۔
صرف چند جید صحابہ کرام کو فتویٰ دینے کی اجازت تھی،
اور وہ بھی قرآن و سنت اور عقلِ سلیم میں کامل بصیرت رکھتے تھے۔

آج ہر شخص جس کے پاس سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہے یا مسجد کا منبر،
وہ فتویٰ دینے لگا ہے۔
یہی وہ انارکی اور بے راہ روی ہے جس نے امت کو بہتر فرقوں میں بانٹ دیا۔

*اصلاحِ امت کی راہ*

اب وقت آگیا ہے کہ امتِ مسلمہ فتویٰ کلچر کے زہر سے نجات حاصل کرے۔
فتویٰ صرف وہی دے جسے علمِ دین، فقہ، عقل اور تدبر میں پختگی حاصل ہو۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کریں،
اور سائنس و عقل کے دشمن نہ بنیں بلکہ انہیں ایمان کے خادم بنائیں۔

اسلام کا اصل پیغام علم، تحقیق اور انصاف ہے —
نہ کہ جمود، تنگ نظری اور نفرت۔

اختتامیہ
جب تک امت علم و فکر کے دشمنوں کے تسلط سے آزاد نہیں ہوگی،
تب تک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔
اب دور آ چکا ہے جب مصنوعی ذہانت اور سائنسی بصیرت
انسان کو خرافات اور جھوٹے فتووں سے نجات دلا سکتی ہے۔

انشاءاللہ، وہ دن دور نہیں جب
محمد الرسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا خالص دینِ حق
پھر سے دنیا کے سامنے اپنی اصل روشنی کے ساتھ جلوہ گر ہوگا —
جہاں علم، عقل، ایمان اور انصاف یکجا ہوں گے۔

احقر الناس:
انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا
ریٹائرڈ انجینیئر، کینپ
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن

تبصرے