قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدہ بریلویہ

*قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدۂ بریلویہ کا موازنہ*

تحقیق و تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا 

تمہید
عقیدۂ بریلویہ برصغیر کے اس مکتبِ فکر کو کہا جاتا ہے جو امام احمد رضا خان بریلویؒ کی تعلیمات، فتاویٰ اور افکار سے منسلک ہے۔
یہ مکتب عشقِ رسول ﷺ، احترامِ اولیاء، اور سنتِ نبوی ﷺ سے ظاہری و باطنی وابستگی پر زور دیتا ہے۔
تاہم بعض عقائد جیسے “نبی ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا”، “علمِ غیبِ نبی”، اور “نورانیتِ بشر” پر علمی حلقوں میں اختلاف موجود ہے۔
ذیل میں انہی نکات کا قرآن و سنت کی روشنی میں موازنہ کیا گیا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی حقیقت: بشر یا نور؟

بریلوی مکتبِ فکر کے نزدیک رسول اللہ ﷺ صرف عام بشر نہیں بلکہ نورِ مجسم ہیں۔
ان کے نزدیک نبی ﷺ کا مادۂ تخلیق نور ہے، اور یہی نور کائنات کے وجود کی اصل ہے۔
امام احمد رضا خانؒ لکھتے ہیں کہ “رسول اللہ ﷺ نور ہیں، بشر ہونا اس نور کے ظاہری لباس کا نام ہے۔”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 15، صفحہ 660)

لیکن قرآن مجید میں نبی ﷺ کا تعارف یوں کرایا گیا:

> “قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ”
(الکہف: 110)
ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہوں، مگر میری طرف وحی کی جاتی ہے۔"

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبی ﷺ انسانی وجود رکھتے ہیں، البتہ وحی نے آپ ﷺ کو تمام بشر سے بلند و افضل بنا دیا۔
یوں قرآن کے مطابق حضور ﷺ نورانیتِ روح کے اعتبار سے ممتاز اور بشریت کے اعتبار سے انسان ہیں۔

*علمِ غیبِ نبی ﷺ*
بریلوی عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب عطا فرمایا، یعنی آپ ﷺ باذنِ اللہ مخلوقات کے احوال جانتے ہیں۔
امام احمد رضا خانؒ نے اپنی کتاب الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات سے متعلق وسیع علم عطا کیا ہے۔

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:
> “قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ”
(النمل: 65)
"آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب نہیں جانتا مگر اللہ۔"

تاہم اسی قرآن میں یہ بھی فرمایا گیا:
> “فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا * إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ”
(الجن: 26–27)
"اللہ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، مگر جس رسول کو وہ پسند فرمائے۔"

اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کو غیب کا علم عطا کیا گیا، مگر وہ علم ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے۔
اس علم کی مقدار وہی ہے جو اللہ چاہے — نہ کم نہ زیادہ۔

*حاضر و ناظر ہونا*
بریلوی عقیدہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ امت کے اعمال کو دیکھتے اور سنتے ہیں، اور آپ ﷺ روحانی طور پر ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
ان کے نزدیک حضور ﷺ کی یہ قدرت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 6، صفحہ 139)

قرآن مجید میں ایک آیت کو اس عقیدہ کے لیے پیش کیا جاتا ہے:
> “وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ”
(التوبہ: 105)
"کہہ دو کہ عمل کرو، تمہارے اعمال کو اللہ، اس کا رسول اور مومن دیکھیں گے۔"

بریلوی علما اس آیت کو دنیا میں روحانی نظر کے طور پر لیتے ہیں، جبکہ دیگر اہلِ علم کہتے ہیں کہ یہ آیت قیامت کے دن کے مشاہدے پر دلالت کرتی ہے۔
صحیح بخاری کی روایت (حدیث: 1367) کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا کہ
> “تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔”

لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ نبی ﷺ کو امت کے اعمال کی اطلاع دی جاتی ہے، مگر یہ اطلاع ہر وقت ہر جگہ کی حاضری نہیں بلکہ پیش کیے جانے کی صورت میں ہے۔

توسل اور استغاثہ
بریلوی عقیدہ ہے کہ اولیاء اور صالحین کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے۔
ان کے نزدیک یہ “شرک” نہیں بلکہ اللہ کے محبوب بندوں کے صدقے سے دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 29، صفحہ 251)

قرآن میں ارشاد ہے:
> “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ”
(المائدہ: 35)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔"

صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ کا واقعہ بھی موجود ہے کہ انہوں نے قحط کے وقت حضرت عباسؓ کے وسیلے سے دعا کی۔
(بخاری، حدیث: 1010)

البتہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد براہِ راست مدد طلب کرنا (یعنی “یا رسول اللہ مدد”) وہ مسئلہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے۔
قرآن میں ایسی براہِ راست “استغاثہ بالاموات” کی صریح دلیل موجود نہیں۔
لہٰذا جو توسل مشروع طریقے سے ہو، وہ درست ہے؛ لیکن اگر اس میں خدا کی صفات کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہو، تو وہ باطل ہے۔

*میلاد النبی ﷺ اور بدعتِ حسنہ*
بریلوی مکتبِ فکر کے نزدیک میلاد النبی ﷺ منانا محبتِ رسول ﷺ کا اظہار ہے اور “بدعتِ حسنہ” ہے۔
اگر اس میں خلافِ شرع امور شامل نہ ہوں تو یہ نیک عمل ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 416)

نبی ﷺ نے فرمایا:
> “من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ”
(صحیح بخاری: 2697)
"جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔"

مگر دوسری روایت میں فرمایا:
> “من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها”
(صحیح مسلم: 1017)
"جس نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا، اسے اس کا اجر ملے گا۔"

اس لیے میلاد کی وہ محافل جو عبادت کے طور پر نہیں بلکہ ذکر، درود اور سیرتِ رسول ﷺ کے بیان کے لیے ہوں، وہ مباح بلکہ باعثِ خیر ہیں، بشرطِ شریعت۔

خلاصہ
قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدۂ بریلویہ کے بعض پہلو محبت و تعظیمِ رسول ﷺ پر مبنی ہیں، جو ایمان کا جزو ہیں۔
تاہم بعض عقائد میں غلو یا تاویلِ بعید کا پہلو پایا جاتا ہے، مثلاً علمِ غیب اور حاضر و ناظر کی وسعت۔
اسلام کا توازن یہ ہے کہ

محبت میں غلو نہیں، اور عقیدے میں کمی نہیں۔

نبی ﷺ کا احترام دلوں کا سرمایہ ہے، لیکن اللہ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔

قرآن کا حکم ہے:
> “لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ”
(النساء: 171)
"اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو۔"
اسی میں ایمان کا اعتدال اور امت کا اتحاد پوشیدہ ہے۔
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333

تبصرے