عقائد بریلویہ و دیوبندیہ کا موزنہ
*عقیدۂ بریلویہ اور عقیدۂ دیوبندیہ کا موازنہ قرآن و سنت کی روشنی میں*
تحقیق و تحریر
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*تعارف*
برصغیر میں اسلام کے دو بڑے فکری دھارے — بریلوی اور دیوبندی — دراصل ایک ہی فقہی بنیاد (فقہِ حنفی) سے وابستہ ہیں، مگر عقائد و تعبیرات میں اختلاف رکھتے ہیں۔
بریلوی مکتبِ فکر امام احمد رضا خان بریلویؒ (1856–1921) سے منسوب ہے،
جبکہ دیوبندی مکتبِ فکر کے بانی حضرات میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، رشید احمد گنگوہیؒ اور اشرف علی تھانویؒ شامل ہیں۔
دونوں کا بنیادی مقصد شریعت کی حفاظت اور دین کی خدمت ہے، مگر ان کے بعض نظریاتی پہلو مختلف ہیں۔
1- نبی کریم ﷺ کی حقیقت: بشر یا نور؟
*عقیدۂ بریلویہ:*
امام احمد رضا خانؒ کے نزدیک نبی ﷺ “نور من نور اللہ” ہیں، یعنی نورانی حقیقت رکھتے ہیں، اور آپ ﷺ کا وجود عام بشر جیسا نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 660)
*عقیدۂ دیوبندیہ:*
دیوبندی علما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ یقیناً سب سے کامل انسان ہیں، مگر آپ ﷺ بشر ہیں، نور نہیں۔
آپ ﷺ بشر ہیں مگر عام بشر جیسے نہیں — بلکہ اشرف المخلوقات۔
(اشرف علی تھانوی، بہشتی زیور، باب العقائد)
قرآن و سنت کی روشنی میں:
> “قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ”
(الکہف: 110)
یہ آیت دونوں پہلوؤں کا توازن قائم کرتی ہے:
نبی ﷺ بشر ہیں مگر اللہ کی وحی نے آپ ﷺ کو تمام مخلوقات سے افضل و منفرد بنا دیا۔
لہٰذا قرآن کے مطابق نبی ﷺ بشر بھی ہیں اور نورانی صفات بھی رکھتے ہیں، مگر نور اللہ نہیں، بلکہ اللہ کی مخلوق ہیں۔
2- علمِ غیب
*عقیدۂ بریلویہ:*
بریلوی علما کے مطابق نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب عطا فرمایا — یعنی آپ ﷺ باذنِ اللہ مخلوقات کے احوال جانتے ہیں۔
(الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ، امام احمد رضا)
*عقیدۂ دیوبندیہ:*
دیوبندی موقف یہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے لیے خاص ہے، نبی ﷺ کو جو علم ملا وہ وحی کے ذریعے محدود حد تک تھا۔
(فتاویٰ رشیدیہ، ج 1، ص 75)
قرآن و سنت کی روشنی میں:
> “قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ”
(النمل: 65)
تاہم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> “إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ”
(الجن: 26–27)
یعنی نبی ﷺ کو غیب کا اتنا علم عطا کیا گیا جتنا اللہ نے چاہا۔
لہٰذا علمِ غیب ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے — یہ درمیانی اور قرآنی توازن ہے۔
3- حاضر و ناظر ہونا
*عقیدۂ بریلویہ:*
رسول اللہ ﷺ روحانی طور پر ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں، اور امت کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 6، ص 139)
*عقیدۂ دیوبندیہ:*
دیوبندی علما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ مدینہ منورہ میں مدفون ہیں، اور قیامت کے دن اعمال پیش کیے جائیں گے، دنیا میں آپ ﷺ ہر جگہ موجود نہیں۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج 1، ص 205)
قرآن و سنت کی روشنی میں:
> “فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ”
(التوبہ: 105)
یہ آیت بعض مفسرین کے نزدیک قیامت کے دن کے مشاہدے پر دلالت کرتی ہے،
لیکن حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
> “تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔”
(مسند احمد، حدیث: 23630)
لہٰذا درست بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کو امت کے اعمال کی اطلاع دی جاتی ہے، نہ کہ آپ ﷺ ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں۔
4- توسل اور استغاثہ
*عقیدۂ بریلویہ:*
بریلوی علما وسیلہ (یعنی نبی ﷺ یا اولیاء کے صدقے سے دعا) کو جائز بلکہ مستحب سمجھتے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 29، ص 251)
*عقیدۂ دیوبندیہ:*
دیوبندی علما “توسل بالاعمال” کو درست مانتے ہیں مگر “توسل بالذات” یا “یا رسول اللہ مدد” جیسے الفاظ کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
(امداد الفتاویٰ، اشرف علی تھانوی)
قرآن و سنت کی روشنی میں:
> “وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ”
(المائدہ: 35)
اور صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کے وسیلے سے دعا کی۔
(بخاری، حدیث: 1010)
لہٰذا مشروع توسل درست ہے، مگر غیر اللہ سے براہِ راست مدد طلب کرنا شرک کے قریب ہے۔87
5- میلاد النبی ﷺ
*عقیدۂ بریلویہ:*
میلاد النبی ﷺ منانا محبتِ رسول ﷺ کا اظہار ہے، بشرطِ شریعت۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 21، ص 416)
*عقیدۂ دیوبندیہ:*
دیوبندی علما میلاد کو عبادت کے طور پر نہیں بلکہ تاریخی اجتماع سمجھتے ہیں،
مگر اس میں غلو اور ناچ گانے جیسی بدعات سے روکتے ہیں۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج 1، ص 377)
قرآن و سنت کی روشنی میں:
> “قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا”
(یونس: 58)
لہٰذا میلاد کا انعقاد اگر شریعت کے دائرے میں ہو تو باعثِ خیر ہے، ورنہ بدعتِ سیئہ ہے۔
6- اولیاء اللہ کی کرامات اور استعانت
دونوں مکاتبِ فکر اولیاء اللہ کی کرامات کو تسلیم کرتے ہیں۔
اختلاف صرف ان کی حد اور ذریعۂ استعانت میں ہے۔
بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ “اللہ کی اجازت سے اولیاء مدد کر سکتے ہیں”،
جبکہ دیوبندی کہتے ہیں “اللہ ہی مددگار ہے، اولیاء دعا کر سکتے ہیں مگر خود مختار نہیں۔”
> “وَمَا نَصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ”
(الانفال: 10)
لہٰذا استعانت باللہ اصل ہے، باقی ہر مدد اسی کے اذن سے ممکن ہے۔
خلاصۂ موازنہ
*پہلو عقیدۂ بریلویہ عقیدۂ دیوبندیہ قرآن و سنت کا توازن*
حقیقتِ نبی ﷺ نور من نور اللہ بشر کامل بشر بشر، مگر روحانی نورانیت کے حامل
علمِ غیب عطائی و وسیع محدود و وحی تک عطائی و محدود
حاضر و ناظر ہر جگہ موجود مدینہ میں مدفون اعمال پیش کیے جاتے ہیں
توسل جائز و مستحب دعا میں وسیلہ جائز، مدد ناجائز مشروع وسیلہ درست
میلاد محبتِ رسول ﷺ محتاط انداز اگر شریعت کے مطابق ہو تو مباح
کراماتِ اولیاء تسلیم شدہ تسلیم شدہ صرف اللہ کے اذن سے ممکن
نتیجہ
اسلام کا اصل پیغام یہ ہے کہ:
"محبت میں غلو نہ ہو، عقیدے میں کمی نہ ہو"۔
بریلوی مکتب نے امت میں عشقِ رسول ﷺ کا چراغ روشن رکھا،
جبکہ دیوبندی مکتب نے توحید و سنت کی پاسبانی کی۔
دونوں کی اچھی باتوں کو جمع کر کے اگر امت عقیدہ میں توحید اور دل میں محبتِ رسول ﷺ کو یکجا کر لے —
تو یہی وہ “امتِ وسط” ہے جسے قرآن نے پسند فرمایا:
> “وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا”
(البقرہ: 143)
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
تبصرے