امام احمد رضا خان بریلوی

*امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ*

تحریر و تحقیق :
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا 

مقدمہ
امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ (۱۴ جون ۱۸۵۶؁-۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱؁) برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم اسلامی مجدد، فقیہ، محدث اور مصنف تھے۔ 
آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار علمی اور روحانی خدمات انجام دیں اور ان کے عقائد نے آج بھی اہلِ سنت و جماعت کے ایک بڑے حصے کی رہنمائی کی ہے۔ اس تحریر میں آپ کی شخصیت، خدمات اور خاص طور پر ان کے عقائد کو اردو نثر میں مکمل حولہ جات کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

پیدائش، تعلیم اور ابتدائی زندگی

١- آپ ۱۰ شوال ۱۲۷۲ ھ بمطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء کو شہر بریلی (برصغیر ہند) میں پیدا ہوئے۔ 
٢- آپ کے والد مولانا نقی علی خان تھے، جنہوں نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی۔ 
٣- آپ نے نابغہ وار ذہانت کا مظاہرہ کیا، کم عمری میں علوِّ علمی ظاہر ہوا۔ 
٤- آپ نے شریعت اور تصوف دونوں میدانوں میں مہارت حاصل کی اور اہلِ سنت کی روایات کو فروغ دیا۔ 

علمی خدمات
آپ نے فقہ حنفی کے تحت بے شمار فتاویٰ دیے اور ان کا مجموعہ معروف ہے: فتاویٰ رضویہ۔ 

قرآنِ مجید کا اُردو ترجمہ و تفسیر: کنز الایمان بھی آپ کی تحریروں میں ہے۔ 

آپ نے سلوک و طریقت پر بھی روشنی ڈالی، اور عشقِ رسول ﷺ، محبّتِ اولیاء کی اہمیت بیان کی۔ 

عقائدِ امام (اہم نکتے)

ذیل میں امام احمد رضا خان کے چند بنیادی عقائد مختصراً بیان کیے گئے ہیں، جن کی روشنی میں ان کا فکری نقشہ واضح ہوتا ہے:

۱- محبتِ رسول ﷺ اور مقامِ نبوت

آپ کے نزدیک نبی کریم ﷺ صرف بشر نہیں بلکہ افضل البشر، نورِ مجسم اور اللہ کے منتخب بندے ہیں۔ 

آپ نے ختمِ نبوت ﷺ پر جزَم کیا اور ہر اُس فکر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو اس عقیدے کو کمزور کرتی تھی۔ 

۲- علمِ غیب اور حاضر و ناظر ہونا

امام احمد رضا خان کا عقیدہ تھا کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب عطا فرمایا ہے۔ 

نیز ان کے نزدیک نبی ﷺ روحانی طور پر امت کے حالات سے واقف ہیں؛ وہ “حاضر و ناظر” ہیں۔ 

۳- توسل، استغاثہ اور اولیاء کی وساطت

آپ نے اولیاء کرام سے توسل (وسیلہ) اور ان سے مدد طلب کرنا مشروع قراردیا بشرطِ شریعت۔ 

ان کے نزدیک یہ اعمال عشقِ رسول ﷺ اور ادبِ اولیاء کا اظہار ہیں، نہ کہ شرک۔

۴- بدعتِ حسنہ اور عشقِ اولیاء

امام نے بدعتِ حسنہ یعنی ایسی نئی تشریعی اعمال جو دین کے اصول سے متصادم نہ ہوں اور امتِ مسلمہ کے لیے خیر کا باعث ہوں، کی حمایت کی۔ مثلاً میلاد کی محافل، درود و نعت کی کثرت۔ 

عشقِ اولیاء و اللہ اور ادبِ اولیاء کو انہوں نے اہمیت دی۔


۵- فقہی وابستگی اور شریعت کی حفاظت

آپ فقہ میں حنفی مکتبِ فکر کے تابع تھے اور برصغیر میں اس کی ترویج کے لیے جامع فتاویٰ اور علمی کام کیا۔ 

شریعت اور تصوف کے درمیان توازن رکھتے تھے، یعنی تصوف کو شریعت کی روشنی میں جائز سمجھا۔

*فکری اثرات اور مخالفت*
اہلِ علم کے نزدیک امام احمد رضا خان کو “مجدّد” قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے وقت کے چیلنجز کے سامنے اہلِ سنت کے عقائد اور عمل کو نمایاں کیا۔ 

البتّہ، بعض حلقوں میں ان کی کچھ تشریحات اور عقائد پر اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر جو تسلسلِ بدعت، توسل، اور اولیاء کی وساطت سے متعلق ہیں۔

انہوں نے شدید انداز میں بعض تحریکوں (مثلاً اہلِ حدیث، دیوبندی، وغیرہ) کے ساتھ اختلاف کیا اور ان کے خلاف کتب و فتاویٰ ترتیب دیے۔ مثلاً حسام الحرمین۔ 

نتیجہ
امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی شخصیت ایک حسین امتزاج ہے: علم و عمل، عشقِ رسول ﷺ، شریعت و طریقت، فقہ حنفی اور سلوک کا ملاپ۔
آپ نے برصغیر میں اہلِ سنت کی فکر کو ایک نئی جہت دی اور آج بھی ان کے عقائد ہزاروں کی زندگیاں متاثر کر رہے ہیں۔
اگرچہ اختلافات موجود ہیں، مگر ان کی خدمات اور فکری میراث کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333

تبصرے