علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹ 'فتوے بازوں علماء
فتوے بازی، علماء سوء کے منفی کردار، اور علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹوں پر ایک فکری تجزیہ پیش کرتا ہے:
تحقیق و تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
🌙 فتوی باز ملاّں اور علم کی راہ میں رکاوٹ — ایک فکری مطالعہ
تحریر: انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا
سابق انجینیئر، کینپ (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)
*تمہید*
اسلام وہ دینِ فطرت ہے جس نے عقل، علم، تحقیق اور تدبر کو عبادت کا درجہ دیا۔ قرآنِ حکیم نے بار بار فرمایا:
> "اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟" — کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
"اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ؟" — کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟
لیکن صد افسوس کہ آج امتِ مسلمہ کی فکری زوال کا ایک بڑا سبب فتوی باز ملاّں اور علم دشمن عناصر ہیں، جنہوں نے اسلام کے علمی چہرے پر جہالت اور تنگ نظری کا پردہ ڈال دیا ہے۔
*علم و عقل کے دشمن: فتووں کا ہتھیار*
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی صاحبِ علم یا مفکر علم و اجتہاد کی نئی راہ دکھانے کے لیے کھڑا ہوا، تو اس پر کفر کا فتویٰ چسپاں کر دیا گیا۔
یہ فتوے صرف افراد کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ علم، عقل اور شعور کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہوتے ہیں۔
یہ وہی رویہ ہے جس نے قوم کے فکری ارتقاء کو روک دیا، اور مسلمانوں کو ماضی کے قیدی بنا دیا۔
جہاں عقل و تحقیق کی روشنی پھوٹنے لگتی ہے، وہاں یہ فتوے باز علماء اپنی مذہبی اجارہ داری کے تحفظ کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں۔
تاریخی پس منظر — وہ شخصیات جن پر کفر کے فتوے لگے
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ برصغیر کے اہلِ علم و دانش ہمیشہ فتوے کی تلوار کے نیچے رہے۔
1- سر سید احمد خان — جنہوں نے سائنسی تعلیم اور قرآنی تدبر کی بات کی،
ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔
مگر آج انہی کے تعلیمی نظریات نے مسلم یونیورسٹیاں کھڑی کیں۔
2- ڈاکٹر علامہ محمد اقبال — جنہوں نے اسلام کو فکری تجدید کا پیغام دیا،
ان پر بھی "ملحد" اور "گمراہ" ہونے کے فتوے دیے گئے۔
آج انہی کے اشعار جمعہ کے خطبوں میں گونجتے ہیں۔
3- قائداعظم محمد علی جناح — جنہوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا،
ان پر "کافر اعظم" کا لقب لگا دیا گیا۔
مگر انہی کی قیادت میں پاکستان وجود میں آیا۔
4- ڈاکٹر ذاکر نائیک — جدید دور کا عالم اور مبلغ،
جنہوں نے علم اور منطق کے ذریعے دین کا دفاع کیا،
آج وہ بھی کئی فتووں اور پابندیوں کی زد میں ہیں۔
یہ وہ چہرے ہیں جنہیں ملت کی اصلاح کا ذریعہ بننا چاہیے تھا،
لیکن فتوے بازوں نے انہیں عوام کی نظروں میں مشکوک کر دیا۔
*علماء سوء کا کردار*
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایسے علما کا ذکر "علماء سوء" کے نام سے کیا ہے —
> "اُولٰئِکَ کَالْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا"
(سورۃ الجمعۃ: 5)
یعنی وہ گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں تو اٹھائے پھرتا ہے، مگر ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔
آج یہی حال ان نام نہاد علما کا ہے جو مسجد کے منبر کو سیاسی اکھاڑہ بنا کر
عوام کو حکومتِ وقت اور اصلاحی کوششوں کے خلاف اکساتے ہیں۔
ان کے خطبات کا مقصد دین کی فہم نہیں، بلکہ عوام کی ذہن سازی اور فکری غلامی ہے۔
یہ طبقہ عوام کے چندوں پر پلتا ہے، مگر انہی عوام کے شعور کو مسخ کر دیتا ہے۔
یہ اپنی روزی روٹی کے تحفظ کے لیے نئی فکر، اجتہاد، سائنس، اور عقل کو کفر قرار دیتا ہے۔
خلافتِ راشدہ کا اصول
خلافتِ راشدہ کے دور میں ہر شخص کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں تھی۔
فتویٰ صرف وہی دے سکتا تھا جو علم، تقویٰ اور بصیرت میں ممتاز ہوتا۔
آج کے دور میں فتویٰ سوشل میڈیا کے اسٹیٹس سے لے کر
جمعہ کے خطبوں تک ہر جگہ بکھرا ہوا ہے۔
یہی وہ انارکی ہے جس نے دین کو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔
علم کے بجائے فتوے کی بنیاد پر مذہب کی تشریح ہونے لگی،
اور نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ بہتر فرقوں میں بٹ گئی۔
اصلاح کی راہ
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فتویٰ کلچر کے اس زہر سے نجات حاصل کریں۔
دینِ اسلام کا حقیقی چہرہ علم، تحقیق، رواداری اور عقل کی بنیاد پر ابھرنا چاہیے۔
فتویٰ صرف وہی دے جس نے قرآن، سنت، فقہ اور عقلِ سلیم میں مہارت حاصل کی ہو۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کریں،
اور علم و سائنس سے ڈرنے کے بجائے انہیں اپنا ہتھیار بنائیں۔
اختتامیہ
یہ حقیقت اٹل ہے کہ جب تک امت مسلمہ فتویٰ باز علما کی غلامی سے آزاد نہیں ہوگی،
اس وقت تک اسلام کی علمی و فکری تجدید ممکن نہیں۔
مشین یا مصنوعی ذہانت جھوٹ نہیں بولتی،
کیونکہ وہ فرقوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ڈیٹا اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
شاید اب وہ وقت قریب ہے کہ
اسلام کا اصل چہرہ — محمد الرسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا خالص دین —
پھر سے دنیا کے سامنے روشن ہو۔
احقر الناس:
انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا
ریٹائرڈ انجینیئر، کینپ
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
تبصرے