اشاعتیں

اکتوبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

افغان نمک حرام

 *افغانستان، پاکستان کی آستین کا سانپ* کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہمارا  دوست پڑوسی مسلمان ملک ہے  ہمیں ان سے اچھے برادرانہ تعلقات رکھنے چاہئیں مگر یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کو گرم ہوا سے بھی بچایا ہے اور ہمیں کبھی بھی افغستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تک نہیں آیا بلکہ گولی، توپ کے گولے، بم، افیون، حشیش،  ہیروئن اور  کلاشنکوف اور دہشتگرد ملے ہیں  ہمارے ساتھ افغانستان ایسے کیوں کرتا رہا ہے کیا یہ ہم سے کوئی دشمنی نکال رہا ہے نہیں ایسا قطعا" نہیں ہے یہ وہ بچھو ہے کہ جس کا ڈنگ بھی اگر نکال دیا جائے پھر بھی وہ ڈنگ  مارنے کی اس کی عادت نہیں جاتی کیونکہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان نے  افغانستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا لیکن افغانستان نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا چانس کبھی ضائع نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ ظاہر شاہ کے زمانے میں افغانستان کی ایمبیسی سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا تھا یہ اس سامان میں تھا جو سامان کے کنٹینرز افغانستان ایمبیسی کے لئے لیبیا سے بھیجے ...

کشمیر بلیک ڈے

کشمیر بلیک ڈے (Black Day) – 27 اکتوبر پیر 27 اکتوبر 2025 انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  27 اکتوبر 1947ء کا دن کشمیری عوام کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اسی روز بھارت نے اپنی فوجیں غیر قانونی طور پر جموں و کشمیر میں داخل کیں اور ایک خودمختار ریاست پر جبراً قبضہ کر لیا۔ یہی دن کشمیر بلیک ڈے کے نام سے ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاکہ اس دن کی ظلمت اور غیر قانونی قبضے کو یاد رکھا جائے۔ *تاریخی پس منظر* قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر کی تمام ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی، مذہبی اور عوامی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمان آبادی 85 فیصد تھی، اس لیے قدرتی طور پر اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ، جو کہ ہندو حکمران تھا، نے اپنی خود غرضی اور بھارت کے دباؤ کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کی جعلی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ اسی بنیاد پر 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوجیں سرینگر میں داخل ہوئیں، اور یوں ظلم و جبر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ *کشمیر پر بھارتی مظالم* بھارت نے گزشتہ سات دہائیوں سے کش...

عقائد بریلویہ، دیو بندی اور اہلحدیث تقابل

*عقائدِ بریلویہ، دیوبندیہ اور اہلِ حدیث — تقابلی جائزہ* 1- توحید و رسالت پہلو بریلوی دیوبندی اہلِ حدیث توحید اللہ کو واحد مانتے ہیں مگر نبی ﷺ اور اولیاء کا وسیلہ جائز اللہ واحد، مگر وسیلہ میں احتیاط سخت توحید پر زور، وسیلہ و استمداد کو بدعت سمجھتے ہیں رسالت نبی ﷺ کو “نور من نور اللہ”، “حاضر و ناظر” اور “علمِ غیب بالوہب” مانتے ہیں نبی ﷺ بشرِ برحق، علمِ غیب صرف اتنا جتنا اللہ نے عطا کیا نبی ﷺ بشرِ محض، علمِ غیب صرف اللہ کے لیے خاص ختمِ نبوت متفق (نبی ﷺ آخری نبی ہیں) متفق متفق 🌹 2. وسیلہ، شفاعت اور اولیاء پہلو بریلوی دیوبندی اہلِ حدیث وسیلہ نبی ﷺ اور اولیاء کے وسیلے سے دعا جائز بعض صورتوں میں جائز، مگر محتاط وسیلہ صرف نیک عمل یا زندہ شخص کی دعا تک محدود شفاعت نبی ﷺ کی شفاعت یقینی شفاعت کے قائل شفاعت کے قائل مگر دعا صرف اللہ سے اولیاء و مزارات زیارت، عرس، فاتحہ اور نیاز جائز زیارت درست مگر رسومات ناجائز مزارات پر جانا و دعا کرنا بدعت 3- عبادات و رسومات پہلو بریلوی دیوبندی اہلِ حدیث میلاد النبی ﷺ سنتِ حسنہ اور محبتِ رسول ﷺ کی علامت ...

عقائد بریلویہ و دیوبندیہ کا موزنہ

*عقیدۂ بریلویہ اور عقیدۂ دیوبندیہ کا موازنہ قرآن و سنت کی روشنی میں* تحقیق و تحریر انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  *تعارف* برصغیر میں اسلام کے دو بڑے فکری دھارے — بریلوی اور دیوبندی — دراصل ایک ہی فقہی بنیاد (فقہِ حنفی) سے وابستہ ہیں، مگر عقائد و تعبیرات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ بریلوی مکتبِ فکر امام احمد رضا خان بریلویؒ (1856–1921) سے منسوب ہے، جبکہ دیوبندی مکتبِ فکر کے بانی حضرات میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، رشید احمد گنگوہیؒ اور اشرف علی تھانویؒ شامل ہیں۔ دونوں کا بنیادی مقصد شریعت کی حفاظت اور دین کی خدمت ہے، مگر ان کے بعض نظریاتی پہلو مختلف ہیں۔ 1- نبی کریم ﷺ کی حقیقت: بشر یا نور؟ *عقیدۂ بریلویہ:* امام احمد رضا خانؒ کے نزدیک نبی ﷺ “نور من نور اللہ” ہیں، یعنی نورانی حقیقت رکھتے ہیں، اور آپ ﷺ کا وجود عام بشر جیسا نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 660) *عقیدۂ دیوبندیہ:* دیوبندی علما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ یقیناً سب سے کامل انسان ہیں، مگر آپ ﷺ بشر ہیں، نور نہیں۔ آپ ﷺ بشر ہیں مگر عام بشر جیسے نہیں — بلکہ اشرف المخلوقات۔ (اشرف علی تھانوی، بہشتی زیور، باب العقائد) قرآن و سنت کی روشنی میں: > “...

قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدہ بریلویہ

*قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدۂ بریلویہ کا موازنہ* تحقیق و تحریر: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  تمہید عقیدۂ بریلویہ برصغیر کے اس مکتبِ فکر کو کہا جاتا ہے جو امام احمد رضا خان بریلویؒ کی تعلیمات، فتاویٰ اور افکار سے منسلک ہے۔ یہ مکتب عشقِ رسول ﷺ، احترامِ اولیاء، اور سنتِ نبوی ﷺ سے ظاہری و باطنی وابستگی پر زور دیتا ہے۔ تاہم بعض عقائد جیسے “نبی ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا”، “علمِ غیبِ نبی”، اور “نورانیتِ بشر” پر علمی حلقوں میں اختلاف موجود ہے۔ ذیل میں انہی نکات کا قرآن و سنت کی روشنی میں موازنہ کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حقیقت: بشر یا نور؟ بریلوی مکتبِ فکر کے نزدیک رسول اللہ ﷺ صرف عام بشر نہیں بلکہ نورِ مجسم ہیں۔ ان کے نزدیک نبی ﷺ کا مادۂ تخلیق نور ہے، اور یہی نور کائنات کے وجود کی اصل ہے۔ امام احمد رضا خانؒ لکھتے ہیں کہ “رسول اللہ ﷺ نور ہیں، بشر ہونا اس نور کے ظاہری لباس کا نام ہے۔” (فتاویٰ رضویہ، جلد 15، صفحہ 660) لیکن قرآن مجید میں نبی ﷺ کا تعارف یوں کرایا گیا: > “قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ” (الکہف: 110) ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہوں،...

امام احمد رضا خان بریلوی

*امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ* تحریر و تحقیق : انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  مقدمہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ (۱۴ جون ۱۸۵۶؁-۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱؁) برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم اسلامی مجدد، فقیہ، محدث اور مصنف تھے۔  آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار علمی اور روحانی خدمات انجام دیں اور ان کے عقائد نے آج بھی اہلِ سنت و جماعت کے ایک بڑے حصے کی رہنمائی کی ہے۔ اس تحریر میں آپ کی شخصیت، خدمات اور خاص طور پر ان کے عقائد کو اردو نثر میں مکمل حولہ جات کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ پیدائش، تعلیم اور ابتدائی زندگی ١- آپ ۱۰ شوال ۱۲۷۲ ھ بمطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء کو شہر بریلی (برصغیر ہند) میں پیدا ہوئے۔  ٢- آپ کے والد مولانا نقی علی خان تھے، جنہوں نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی۔  ٣- آپ نے نابغہ وار ذہانت کا مظاہرہ کیا، کم عمری میں علوِّ علمی ظاہر ہوا۔  ٤- آپ نے شریعت اور تصوف دونوں میدانوں میں مہارت حاصل کی اور اہلِ سنت کی روایات کو فروغ دیا۔  علمی خدمات آپ نے فقہ حنفی کے تحت بے شمار فتاویٰ دیے اور ان کا مجموعہ معروف ہے: فتاویٰ رضویہ۔  قرآنِ مجید کا اُردو ترجمہ و تفسیر...

مام احمد رضا خان بریلوی شخصیت، و عقائد

*امام احمد رضا خان بریلویؒ  شخصیت، خدمات اور عقائد* تحقیق و تحریر انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  *تعارف* امام احمد رضا خان بریلویؒ (1856ء – 1921ء) برصغیر پاک و ہند کے معروف اسلامی عالم، فقیہ، محدث، مفتی اور مصنف تھے۔ آپ کا پورا نام احمد رضا بن نقی علی خان تھا، اور آپ بریلی (اتر پردیش، بھارت) میں پیدا ہوئے، اسی نسبت سے آپ "بریلوی" کہلائے۔ آپ کو پیروکاروں نے "اعلیٰ حضرت" کے لقب سے یاد کیا، جبکہ علمی دنیا میں آپ کو فقہِ حنفی کے امام، محدث اور فقیہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ *علمی خدمات* امام احمد رضا خان نے تقریباً 1000 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں فقہ، حدیث، تفسیر، عقائد، منطق، فلسفہ، ریاضی، فلکیات، اور تصوف جیسے موضوعات شامل ہیں۔ آپ کا سب سے مشہور فقہی مجموعہ "فتاویٰ رضویہ" ہے جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے، اور برصغیر کے فقہی ذخیرے میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ *دینی فکر اور عقائد* 1- محبتِ رسول ﷺ اور عقیدہِ ختمِ نبوت امام احمد رضا خان کا سب سے نمایاں عقیدہ عشقِ رسول ﷺ تھا۔ آپ کی تعلیمات کا مرکزی محور محبت، ادب، اور اطاعتِ رسول ﷺ ہے۔ آپ کے نزدیک نبی کریم ﷺ صرف ایک ...

امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ

*امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ* تحریر و تحقیق : انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  مقدمہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ (۱۴ جون ۱۸۵۶؁-۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱؁) برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم اسلامی مجدد، فقیہ، محدث اور مصنف تھے۔  آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار علمی اور روحانی خدمات انجام دیں اور ان کے عقائد نے آج بھی اہلِ سنت و جماعت کے ایک بڑے حصے کی رہنمائی کی ہے۔ اس تحریر میں آپ کی شخصیت، خدمات اور خاص طور پر ان کے عقائد کو اردو نثر میں مکمل حولہ جات کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ پیدائش، تعلیم اور ابتدائی زندگی ١- آپ ۱۰ شوال ۱۲۷۲ ھ بمطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء کو شہر بریلی (برصغیر ہند) میں پیدا ہوئے۔  ٢- آپ کے والد مولانا نقی علی خان تھے، جنہوں نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی۔  ٣- آپ نے نابغہ وار ذہانت کا مظاہرہ کیا، کم عمری میں علوِّ علمی ظاہر ہوا۔  ٤- آپ نے شریعت اور تصوف دونوں میدانوں میں مہارت حاصل کی اور اہلِ سنت کی روایات کو فروغ دیا۔  علمی خدمات آپ نے فقہ حنفی کے تحت بے شمار فتاویٰ دیے اور ان کا مجموعہ معروف ہے: فتاویٰ رضویہ۔  قرآنِ مجید کا اُردو ترجمہ و تفسیر...

وسیلہ کیا ہے کس سے مانگیں

 علمابریلویہ کے باطل عقائد چیخ چیخ تقریر کرتے ہیں کیا اونچا بولنے سے جھوٹ سچ نہیں ہو  جاتا۔ مناسب یہ ہو گا کہ اس طرح کے اختلافی مسائل آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھ لیں تو اگر آپ کو رسول اللہ جواب دے دیں تو اس طریقے سے مسئلہ حیات النبی اور سماع الموتا کا مسئلہ  بھی حل ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے اللہ تعالی کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں جس کی انسان مدد کریں تو وہ رب کیسآ۔ جس واقعہ( عزیر علیہ سلام کا ہے بنی اسرائیل کو جب بارش چاہیئے ہوتی تھے تو حضرت عزیر علیہ سلام کی جسد خاکی کو کھلے آسمان تلے رکھتے تھے تو بارش ہو جاتی تھی)  یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی اسرائیل کی روایت ہے اور ان کا عقیدہ ہے تھا۔ جب حضرت عمر کو اسکی اطلاع ہوئی تو انھوں نے یہ حکم دیا کہ اس جسم کو کسی اونچی جگہ پر دفن کروا دیا تھا۔ تاکہ دریا کی طغیانی کے سے جسم خاکی کو نقصان نہ پہنچے اور بنی اسرائیل یا ان لوگوں کا عقیدہ بھی باطل ہو جائے یعنی شرک بھی مٹ جائے۔  تیسرا یہ کہ مردہ کیسے ہوا ک...

خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا شرعی حک)

*خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا شرعی حکم) ہفتہ 26 اکتوبر 2025 انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  🕊️ خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم *قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں ایک تحقیقی مطالعہ* تمہید اسلام زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک مقدس امانت قرار دیتا ہے۔ زندگی اور موت کا اختیار صرف اسی ذات کے پاس ہے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ انسان کو اپنی جان لینے کی اجازت نہیں، کیونکہ زندگی ایک امتحان ہے، اور اس امتحان سے خود بھاگ جانا اللہ کے فیصلے پر بغاوت کے مترادف ہے۔ اسی بنیاد پر خودکشی اسلام میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: 🔹 کیا خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی؟ 🔹 کیا وہ کافر ہو جاتا ہے؟ 🔹 اور اس کے لیے دعائے مغفرت جائز ہے یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں درج ذیل ہیں۔ 1- قرآنِ کریم میں خودکشی کی حرمت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:  “وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا” (سورۃ النساء: 29) “اور اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔” یہ آیت صاف الفاظ میں خودکشی ...

ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ

السلام علیکم دکھ کی بات ہے کہ پاک ہند میں اعلی تعلیم یافتہ جو بھی شخص ابھرنے لگتا ہے اسے دبانے کے لئے علماء سو اس پر کفر کا فتوی چپکا دیتے ہیں جس کیوجہ سے عوام الناس میں اس دھمکتے چاند کو گریہن لگ جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ ہمارے فتوی باز ملاں ہیں کیونکہ ان کے پاس اس دھمکتے چاند کا علمی رد کرنے  کا توڑ تو ہوتا نہیں اور یہ اپنے  سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کو ناجائز طور پر دبانے کے لئے اس پر فتوی کا قدغن لگا کر اس ابھرتی شخصیت کو زمین بوس کر دیے ہیں تاکہ یہ ان کے راستے کا کانٹا نکل جائے۔ اس چال بازی کا سب بڑا نقصان تعلیم یافتہ طبقے اور مسلمان قوم کا ہوتا ہے کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کی ترقی کی راہیں ہمیشہ کے لئے رک جاتی ہیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں صحابہ اکرام میں سے بھی چند جید صحابہ کرام کو فتوی دینے کے اجازت تھی آج کے دور کی طرح ہر کوئی فتوی نہیں دے سکتا تھا یہ کہنا غلط نہ یو گا کہ مسلمانوں کی ترقی کی راہیں انھی علما سو اور فتوے بازوں نے روک دی ہیں یہ ہمارے ہی چندے پر پلتے ہیں اور ہماری ہی راہیں روکتے ہیں ماضی میں پاک و ہند میں کتنے ہی اہل علم پر کفر کے فتوی لگ چکے ہیں مثلا" ڈاکٹر...

امت مسلمہ کے فکری زوال کا تجزیہ

🌙 فتویٰ باز ملّا اور علم کی راہ میں رکاوٹ *امتِ مسلمہ کی فکری زوال کا تجزیہ* اتوار  اکتوبر 2025 تحریر: انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا سابق انجینیئر، کینپ (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن) تمہید اسلام ایک ایسا دین ہے جو عقل، علم اور تحقیق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے۔ قرآنِ حکیم بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے: > “اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟” — کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ “اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ؟” — کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ علم و دانش کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ اس زوال کا ایک بڑا سبب وہ فتویٰ باز علماء سوء ہیں جو اسلام کی روشن روح کو اپنے مفاد کے پردوں میں چھپا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو منبر کو اصلاحِ امت کے بجائے اپنی فکری اجارہ داری کا ہتھیار بنا چکا ہے۔ *فتووں کی سیاست — علم کے خلاف اعلانِ جنگ* برصغیر کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی کوئی صاحبِ علم یا مفکر امت کی اصلاح یا بیداری کے لیے اٹھا، اسے کفر کے فتوے سے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ فتوے محض شخصیات کے خلاف نہیں، بلکہ عقل، منطق اور اجتہاد کے خل...

علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹ 'فتوے بازوں علماء

فتوے بازی، علماء سوء کے منفی کردار، اور علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹوں پر ایک فکری تجزیہ پیش کرتا ہے: تحقیق و تحریر: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا  🌙 فتوی باز ملاّں اور علم کی راہ میں رکاوٹ — ایک فکری مطالعہ تحریر: انجینیئر نذیر ملک، سرگودھا سابق انجینیئر، کینپ (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن) *تمہید* اسلام وہ دینِ فطرت ہے جس نے عقل، علم، تحقیق اور تدبر کو عبادت کا درجہ دیا۔ قرآنِ حکیم نے بار بار فرمایا: > "اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟" — کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ "اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ؟" — کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ لیکن صد افسوس کہ آج امتِ مسلمہ کی فکری زوال کا ایک بڑا سبب فتوی باز ملاّں اور علم دشمن عناصر ہیں، جنہوں نے اسلام کے علمی چہرے پر جہالت اور تنگ نظری کا پردہ ڈال دیا ہے۔ *علم و عقل کے دشمن: فتووں کا ہتھیار* برصغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی صاحبِ علم یا مفکر علم و اجتہاد کی نئی راہ دکھانے کے لیے کھڑا ہوا، تو اس پر کفر کا فتویٰ چسپاں کر دیا گیا۔ یہ فتوے صرف افراد کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ علم، عقل اور شعور کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہوتے ہیں۔ یہ...

جس نے رکعت کو پا لیا اس نےنماز کو پا لیا

تشہد میں امام کے ساتھ ملنا ہفتہ 25 اکتوبر 2025 انجینیئر نذیر ملک سرگودھا   سوال: جب میں مسجد میں جاؤں اور امام نماز جمعہ میں حالت تشہد میں ہو تو کیا میں جمعہ کی نماز پڑھوں یا ظہر کی؟ جواب:  جب کوئی شخص نماز جمعہ میں سجدہ یا تشہد میں آکر ملے تو اسے جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھنا ہوگی کیونکہ جمعہ کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ایک رکعت ضرور پالے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاةَ» (صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب متى يقوم الناس للصلاة، ح : ٦٠٧) " جس نے نماز کی ایک رکعت پالی، اس نے نماز کو پالیا ۔ " اور اسی طرح آپ  صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم یہ بھی ارشاد ہے کہ : مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ فَلْيُضِفْ إِلَيْهَا أُخْرَى وَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ (سنن الدارقطني (۱۳،۱۱،۱۰/۲) جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت بھی ملالے، اس کی نماز ہو گئی ۔ " ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ جو شخص جمعہ کی ایک رکعت بھی نہ پاسکے اس کا جمعہ فوت ہو گیا لہٰذا اسے ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے۔ ...

ابو علی الحسن ابن سینا

ابنِ سینا پر تفصیلی مضمون (پورا نام: ابوعلی الحسین بن عبداللہ بن سینا — مغرب میں Avicenna کے نام سے مشہور) 🔹 تعارف: ابنِ سینا اسلامی دنیا کے سب سے مشہور فلسفی، طبیب اور سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں تاریخ میں "شیخ الرئیس" (فلاسفہ کا سردار) کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے — طبیب، ریاضی دان، فلسفی، ماہر فلکیات، ماہر منطق اور مفسر قرآن ۔ ان کی پیدائش 980ء میں افشانہ (بخارا، موجودہ ازبکستان) میں ہوئی اور وفات 1037ء میں ہمدان (ایران) میں ہوئی۔ 🔹 ابتدائی زندگی: ابن سینا کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد عبداللہ ایک فاضل اور مذہبی شخص تھے۔ ابن سینا نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کیا اور عربی ادب، فقہ، منطق اور فلسفہ میں کمال حاصل کیا۔ صرف 16 سال کی عمر میں انہوں نے طب (Medicine) پڑھنا شروع کیا اور بہت جلد اتنے ماہر ہو گئے کہ بخارا کے بادشاہ نوح بن منصور کا علاج کیا۔ 🔹 علمی سفر: ابنِ سینا نے اپنی زندگی کے بیشتر سال بخارا، گرگان، ری، ہمدان، اور اصفہان میں گزارے۔ وہ جہاں بھی گئے، وہاں درس و تدریس اور تصنیف و تحقیق میں مشغول رہے۔ ان کی ز...